غلط نہ جان کہ اتنے حقیر ہم بھی نہيں
نہیں ہو تم بھی قیامت کی تندوتیز ہوا
کسی کے نقش قدم کی لکیر ہم بھی نہیں
ہماری ڈوبتی نبضوں سے زندگی تو نہ مانگ
سخی ہو ہیں مگر اتنے امیر ہم بھی نہيں
کرم کی بھیک نہ دے، اپنا تخت بخت سنبھال
ضرورتوں کا خدا تو، فقیر ہم بھی نہيں
شب سیاہ کے "مہمان دار" ٹھرے ہیں
وگر نہ تیرگیوں کے سفیر ہم بھی نہیں
ہمیں بجھا دے ، ہماری آنا کو قتل نہ کر
کہ بے ضررہی سہی بے ضمیر ہم بھی نہيں
محسن نقوی
محبتوں میں ہوس کے اسیر ہم بھی نہیں
Reviewed by Zintovlogs
on
January 25, 2020
Rating:
No comments: