ہے رے تیری کیا اوقات
دودھ پلانے والے جانوروں میں
اے سب سے کم اوقات
پرش کی پسلی سے تو تیرا جنم ہوا
اور ہمیشہ پیروں میں تو پہنی گئی
جب ماں جایا پھلواری میں تتلی ہوتا
تیرے پھول سے ہاتھوں میں
تیرے قد سے بڑی جھاڑو ہوتی
ماں کا آنچل پکڑے پکڑے
تجھ کو کتنے کام آجاتے
اپلے تھاپنا
لکڑی کاٹنا
گائے کی سانی بنانا
پھر بھی مکھن کی ٹکیہ
ماں نے ہمیشہ بھیا کی روٹی پہ رکھی
تیرے لئے بس رات کی روٹی
رات کا سالن
روکھی سوکھی کھاتے
موٹا جھوٹا پہنتے
تجھ پہ جوانی آئی تو
تیرے باپ کی نفرت تجھ سے اور بڑھی
تیرے اٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے پر
ایسی کڑی نظر رکھی
جیسے ذرا سی چوک ہوئی
اور تو بھاگ گئی
سولھواں لگتے ہی
ایک مرد نے اپنے من کا بوجھ
دوسرے مرد کے تن پہ اتار دیا
بس گھر اور مالک بدلا
تیری چاکری وہی رہی
بلکہ کچھ اور زیادہ
اب تیرے ذمے شامل تھا
روٹی کھلانے والے کو
رات گئے خوش بھی کرنا
اور ہر ساون گا بھن ہونا
پورے دنوں سے گھر کا کام سنبھالتی
پتی کا ساتھ
بس بستر تک
آگے تیرا کام
کیسی نوکری ہے
جس میں کوئی دیہاڑی نہیں
جس میں کوئی چھٹی نہیں
جس میں الگ ہوجانے کی، سرے سے کوئی ریت نہیں
ڈھوروں ڈنگروں کو بھی
جیٹھ ساڑھ کی دھوپ میں
پیڑ تلے سستانے کی آزادی ہوتی ہے
تیرے بھاگ میں ایسا کوئی سمے نہیں
تیری جیون پگڈنڈی پر کوئی پیڑ نہیں ہے
ہے رے
کن کرموں کا پھل ہے تو
تن بیچے تو کسبی ٹھہرے
من کا سودا کرے اورپتنی کہلائے
سمے کے ہاتھوں ہوتا رہے گا
کب تک یہ اپمان
ایک نوالہ روٹی
ایک کٹورے پانی کی خاطر
دیتی رہے گی کب تک تو بلیدان
پروین شاکّر
بشیرے کی گھر والی
Reviewed by Zintovlogs
on
September 18, 2019
Rating:
No comments: