banner image

Facebook

banner image

معیشت کے حوالے سے میرے پاس نہ تو کوئی متعلقہ کوالیفیکشن ہے اور نہ ہی تجربہ

Pakistan economy


معیشت کے حوالے سے میرے پاس نہ تو کوئی متعلقہ کوالیفیکشن ہے اور نہ ہی تجربہ۔ اس کے باوجود موٹی موٹی باتیں محض کامن سینس کی بنیاد پر سمجھنا زیادہ مشکل نہیں۔
اسحاق ڈار کے لندن مفرور ہونے کے بعد ن لیگ نے مفتاح کو وزیرمملکت برائے خزانہ تعینات کیا۔ مفتاح نے وزیر بننے کے بعد ایک چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ معیشت کی حالت کافی خراب ہے اور سابق وزیر (یعی اسحاق ڈار) کی طرف سے ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر 100 روپے تک رکھنے کیلئے ہر سال حکومت کو چھ سے آٹھ ارب ڈالرز مارکیٹ میں پھینکنا پڑتا تھا۔ ایکسپورٹ تو ن لیگ کے دور میں نیچے گرچکی تھیں، چنانچہ یہ چھ سے آٹھ ارب ڈالرز حاصل کرنے کا واحد ذریعہ غیرملکی قرضہ تھا۔ چنانچہ ہر سال یہ قرض قوم پر لادا جاتا رہا۔
یہی وجہ ہے کہ زرداری حکومت کے خاتمے پر جو غیرملکی قرضہ 55 ارب ڈالرز تھا، وہ ن لیگ حکومت کے خاتمے پر 94 ارب ڈالرز تک پہنچ چکا تھا۔ قرضے کا مطلب صرف اس کی قسط ہی نہیں ہوتی بلکہ اس پر سود بھی شامل ہوتا ہے۔ 2013 میں اگر پاکستان کو قرض کی اقساط کی مد میں ہر سال چھ ارب ڈالرز واپس کرنا پڑتے تھے تو 2018 میں یہی اقساط دس سے بارہ ارب ڈالرز سالانہ سے تجاوز کرچکی تھیں۔
ایک ایسا ملک جس کی ایکسپورٹ ن لیگ کے دور میں پچیس فیصد تک گرا دی گئی، عوام ٹیکس نہیں دیتے، اس ملک کو چلانے کیلئے پھر واحد آپشن یہی بچتا تھا کہ مزید قرضہ لیا جائے۔
تحریک انصاف کے پہلے وزیرخزانہ اسد عمر نے البتہ مخلصانہ کوشش کی یہ قرض آئی ایم ایف سے لینے کی بجائے دوست ممالک سے آسان شرائط یا بلا سود حاصل کرلیا جائے۔ اس عمل میں آٹھ سے دس ماہ گزر گئے لیکن دوست ممالک کی طرف سے خاطر خواہ امداد نہ مل سکی۔
اس دوران منی مارکیٹ میں سابقہ حکومت کی طرح مزید چھ سے آٹھ ارب ڈالرز کی سپلائی کا سلسلہ منقطع ہوچکا تھا، چنانچہ منی مارکیٹ نے قدرتی رسپانس دکھاتے ہوئے ڈالر کی قیمت بڑھانا شروع کردی۔ روپیہ گرنا شروع ہوا اور 165 تک آگیا۔ پھر بحالت مجبوری حکوت کو آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج لینا پڑا - اس پیکج کے بعد روپیہ دوبارہ مستحکم ہونا شروع ہوا اور پچھلے آٹھ ماہ میں 155 کی سطح پرآگیا۔
روپے کی قیمت گرنے سے اشیا کی قیمت بڑھنا شروع ہوگئی کیونکہ پاکستان کی سابقہ حکومتوں کی مہربانیوں سے ہماری ساری معیشت امپورٹ پر بیس کرنے لگ گئی ہے۔ اگر ڈالر اوپر جائے گا تو ہر چیز کی قیمت اوپر جائے گی اور یہی کچھ ہوا۔
امپورٹ کا رحجان کم کرنے کیلئے حکومت نے امپورٹ ڈیوٹی بڑھا دی تاکہ مقامی صنعت کو سگنل ملیں اور خام مال بجائے امپورٹ کرنے کے، مقامی مارکیٹ میں تیار کرنے کا رحجان شروع ہوسکے۔
ایسے سگنلز کا رسپانس آنے میں کئی سال لگتے ہیں چنانچہ موجودہ پالیسی کے ثمرات 2023 تک ہی نظر آنا شروع ہوں گے۔
اس دوران حکومت نے معاشی میدان میں کچھ ایسی کامیابیاں حاصل کیں جو کہ بظاہر عام آدمی کو نظر نہیں آسکتیں اور نہ ہی وہ محسوس کرسکتا ہے۔
پچھلے سال ستمبر میں ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 80 فیص تک کم ہوگیا۔
فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں ستر فیصد تک اضافہ ہوا۔
کراچی سٹاک ایکسچینج نے مسلسل تیزی کے ایسے ریکارڈز بنائے کہ اسے دنیا کی بہترین سٹاک ایکسچینج میں شمار کیا جانے لگا۔
حالیہ ماہ سٹیٹ بنک کے ریزروز پونے بارہ ارب ڈالرز تک پہنچ گئے جو کہ پچھلے 24 ماہ کی بلند ترین سطح ہے۔
کیا پچھلے بیس ماہ میں مہنگائی ہوئی؟ یقینناً ہوئی۔
کیا اس کی ذمے دارتحریک انصاف ہے؟ ہرگز نہیں۔
تحریک انصاف کو تو اس بات کا کریڈٹ دینا چاہیئے کہ وہ ملکی قرضہ اتار رہی ہے اور روپے کی قیمت کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کیلئے ہر سال سات ارب ڈالرز مارکیٹ میں نہیں جھونک رہی۔
اس وقت جو قیمتیں ہیں، یہ بالکل اوریجنل اور مارکیٹ سیچوئشن کے مطابق ہیں۔ کم از کم آپ کی معیشت مصنوعی تنفس کے سہارے نہیں کھڑی۔ عمران خان کیلئے یہ بہت آسان تھا کہ وہ بھی ملکی اثاثے گروی رکھتے ہوئے مزید قرضہ لے کر روپے کی قیمت کنٹرول کئے رکھتا ۔ ۔ ۔ اس دوران اپنی اولاد سمیت سارے خاندان کا کاروبار لندن شفٹ کردیتا اور پھر خود بھی پانچ دس سال بعد لندن میں اربوں کی جائیداد پر عیاشی کرتا۔
عمران خان کا جینا مرنا اسی دھرتی پر ہے۔ وہ نہ تو فرار ہوگا اور نہ ہی عوام کیلئے لانگ ٹرم قرضوں کا جال بنے گا۔
موجودہ وقت مشکل ضرور ہے لیکن اگر ہم اس مشکل وقت سے باہر آگئے تو پھر انشا اللہ، ہماری ترقی کی رفتار بہت تیز ہوگی کیونکہ عالمی ادارے پاکستان کو اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ پوٹینشل رکھنے والی معیشت قرار دے چکے ہیں۔
یہ بات بغض عمران کا شکار اچھی طرح جانتے ہیں، اسی لئے ان کے رنڈی رونے جاری ہیں اور انشا اللہ جاری رہیں گے۔
اور اگرخدانخواستہ عمران خان ناکام رہا تو ایک بات پھر بھی ذہن نشین کرلیں ۔ ۔ ۔ نوازشریف اور زرداری کی تو آنے والی سات نسلوں میں سے بھی کسی کو ہم اقتدار کے پاس نہیں پھٹکنے دیں گے۔
کم از کم میرا یہ آپ سے وعدہ ہے کہ نوازشریف او زرداری جیسے حرامزادوں کو دوبارہ اقتدار میں آنے سے روکنے کیلئے اپنی ہر ممکن توانائی خرچ کردوں گا، انشا اللہ!!!


معیشت کے حوالے سے میرے پاس نہ تو کوئی متعلقہ کوالیفیکشن ہے اور نہ ہی تجربہ  معیشت کے حوالے سے میرے پاس نہ تو کوئی متعلقہ کوالیفیکشن ہے اور نہ ہی تجربہ Reviewed by Zintovlogs on February 16, 2020 Rating: 5

No comments:

This is the current condition of these people after rain it is really heartbreaking

district Badin This is the current condition of these people after rain it is really heartbreaking and very sad . They have no facilities e...

Powered by Blogger.