ماری جو چیخ ریل نے جنگل دہل گیا
سویا ہوا تھا شہر کسی سانپ کی طرح
میں دیکھتا ہی رہ گیا اور چاند ڈھل گیا
خواہش کی گرمیاں تھیں عجب ان کے جسم میں
خوباں کی صحبتوں میں مرا خون جل گیا
تھی شام زہر رنگ میں ڈوبی ہوئی کھڑی
پھر اک ذرا سی دیر میں منظر بدل گیا
مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیّر
اک بار دل تو دھڑکا مگر بھر سنبھل گیا
منیر نیازیّ
اک تیز تیر تھا کہ لگا اور نکل گیا
Reviewed by Zintovlogs
on
February 25, 2020
Rating:
No comments: