دل کی بربادی کا کوئی سلسلہ پہلے سے تھا
اس چراغ شب پہ الطاف ہوا پہلے سے تھا
اس کے یوں ترک محبت کا سبب ہوگا کوئی
جی نہیں یہ مانتا وہ بے وفا پہلے سے تھا
دونوں اپنی زندگی کے جھٹپٹے میں ہیں مگر
اس طرح ملنا مقدر میں لکھا پہلے سے تھا
اب تو زخم دل نمک خوار توجہ ہے ترا
نام پر جاری ترے حرف دعا پہلے سے تھا
راستہ بھولا نہيں اب کے پرند خوش خبر
اور کچھ اجڑا ہوا شہر سبا پہلے سے تھا
تیرے آنے سے تو بس زنجیر ہی بدلی گئی
ہم اسیروں پر جفا کا باب وا پہلے سے تھا
پروین شاکر
دل کی بربادی کا کوئی سلسلہ پہلے سے تھا
Reviewed by Zintovlogs
on
February 12, 2020
Rating:
No comments: