یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاوں تجھے اے دل تنہا میرے
وہ محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مرے ہیں یہی اعدا میرے
میں یہی کاسہ ولب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے اے صاحب دریا میرے
مجھ کو اس ابر بہاری سے ہے کب کی نسبت
پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے
دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جان فرازّ
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے
احمد فرازّ
یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
Reviewed by Zintovlogs
on
February 29, 2020
Rating:

No comments: