نگار حسن کی زلفوں کے پیچ و خم نہيں ہوتا
عطا کی ہے خدا نے تھوڑی سی جوہر شناسی بھی
میں ایک شبنم کے قطرے میں سمندر نم نہیں ہوتا
ہے فطرت میں قناعت، تو فقط چکھتی ہوں تھوڑی سی
مزہ آیا اگر چکھ کر ، تو پی کر غم نہیں ہوتا
خدا محفوظ رکھتا ہے کرم سے خیر خواہوں کو
کہ ان کے آستینوں میں کوئی الم نہیں ہوتا
خود اپنا فیصلہ بھی عشق میں کافی نہیں ہوتا
اسے بھی کیسے کر گزریں جو یہ پرنم نہیں ہوتا
ہمارے درد و غم کا کچھ مداوا ہو سکے شاید
تری آنکھوں کا موسم کیا یہ موسم نہیں ہوتا
گلہ وشمہ کریں کیوں ہم کسی کی بے وفائی کا
رہے گا یاد بھی کیسے جو اس کا غم نہیں ہوتا
وشمہ خان وشمہ
چھپائیں کتنا بھی وہ اپنا پیکر غم نہیں ہوتا
Reviewed by Zintovlogs
on
March 17, 2020
Rating:
No comments: