banner image

Facebook

banner image

ہماری روایات کا آمین خاورئی کا تاریخی چشمہ



بسم اللہ الرحمن الرحیم
سڑہ چینہ
ہماری روایات کا آمین خاورئی کا تاریخی چشمہ
تحقیق:محمد فاروق خٹک خاورئی
,,چینہ،، پشتو میں چشمے کو کہتے ہیں جبکہ,,سڑہ چینہ،، یعنی ٹھنڈے پانی کا چشمہ جبکہ عربی میں,,ینبع،، اور,, عین،،کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں -,, سڑہ چینہ،، کاعربی ترجمہ,, ینبع البارد،، ہو گا- سعودی عرب میں مقیم بھائی,, ینبع البحر،، اور ینبع النخل،، کے نام سے واقف ہیں - ینبع لبحر ایک انڈسٹریل زون جبکہ ینبع النخل سے میٹھا اور صاف پانی سپلائی ہوتا ہے - رب کریم کی عظیم کتاب کے سورۃ الرحمن آیت نمبر 95 (فیھما عینن تجریٰن ) میں جنت کی نعمتوں میں دو چشموں کا ذکر ہے - حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کے حکم سے اپنی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ اور اپنے لخت جگر حضرت ا سمعیٰل ذبیح اللہ کو بیت اللہ کے قریب بے أب و گیاہ وادی میں چھوڑ کر جارہے تھے تو اللہ تعالی ٰ نے ننھے حضرت اسمعٰیل کے قدموں سے,,زم زم،، کا چشمہ جاری فرمایا جس سے دنیا آج تک بلکہ قیامت تک پینے کی سعادت حاصل کرتی رہے گی- چشمے دوقسم کے ہوتے ہیں ایک زمین سے ابلتا ہے جبکہ دوسرا پہاڑوں سے نکلتا ہے دونوں کی افادیت اپنی جگہ لیکن پہاڑوں سے نکلنے والے چشمے کا پانی زیادہ میٹھا شیرین اور صحت بخش ہوا کرتا ہے -
وادی خاورئی دراصل خوبصورت چشموں کی سرزمین ہے کیونکہ خاورئی کے پانی کا تمام دارومدارپہاڑی چشموں کے پانی پر ہے بلکہ خاورئی آباد ہی انہی چشموں کی بنیاد پر ہوا - مولانا اخلاص الدین بابا علیہ الرحمۃ کے مرتب کردہ400 سال پرانے خاورئی کے شجرہ نسب کے مطابق ہمارے آباء و اجداد نقل مکانی کرکے یہاں آئے تو ٹھنڈے پانی کے چشموں اور چارے کی وافر مقدار کی وجہ سے کر یہیں آباد ہوئے - خاورئی کے تمام باغ چشموں پر ہی بنے ہوئے تھے بلکہ ہر گھر کے ساتھ ایک باغ ضرور ہوا کرتا تھا -,, لیوگئے زانگ،،,, زانگ باڑئے،،,, ولے،،,, مان الدین بابا باڑئے،،,,تانگے بند،، اور اسی طرح کے بہت سارے خاورئی کے تاریخی باغ پانی کے چشموں پر ہی بنے ہوئے تھے - لیکن خاورئی کے ان تمام چشموں میں,, سڑہ چینہ،، ایک ممتاز اور منفرد حیثیت کا حامل چشمہ ہے کیونکہ اس کے ساتھ نہ کوئی گھر ہے اور نہ ہی باغ بلکہ آبادی سے دور جنگل اورایک خوبصورت اور سرسبز وشاداب وادی میں واقع ہے - پرانے زمانوں میں لوگ گائے بکریاں اور مال مویشی چرایا کرتے تھے، بیری کے موسم میں بیریوں کے پھل چنتے تھے، بکریوں اور مال مویشیوں کے لیے چارہ کاٹتے تھے یا جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرتے تو,,سڑہ چینہ،، اور اس کا ٹھنڈا، میٹھا اور شرین پانی اور یہاں کے بیری کے درختوں کی گھنی چھاؤں ان کے لیے ایک نعمت، ایک ریسٹ ہاؤس ایک استراحہ سے کم نہیں تھی - دوپہر کی گرمیوں میں یہاں لوگ جمع ہوتے یہاں چٹنی بنانے کے لیے ایک مخصوص پتھر (تابئے) رکھا تھا جس پر,,ترو ُکے،،,, پیازکے،، اور مختلف موسمی پودوں کی چٹنی بنائی جاتی اور روٹی کے ساتھ کھائی جاتی - کھانے تو انسان کھاتا ہی رہتا ہے لیکن بات کھانے سے لطف اندوز ہونے کی ہوتی ہے بے شک کہ آج کل کے کھانے بھی بہترین ہیں فرج کا ٹھنڈا پانی بھی ہے لیکن جنہوں نے گرمیوں کے موسم میں,, سڑہ چینہ،، کا ٹھنڈا پانی اور وہاں چٹنی کے ساتھ روکھی سوکھی روٹی کھائی ہے وہ اس کا لطف نہیں بھول سکیں گے - تب ہی تو خوشحال خان خٹک ہندوستان کے رنتھمبور قلعے میں بھی پختونخواہ کے پہاڑوں کے ٹھنڈے چشموں کے پانی کی یاد ستاتی رہتی تھی
چہ گزر پہ خیر آباد اوکڑے نسیمہ
,,سڑہ چینہ،، اور اس کے آس پاس کی پہاڑیاں خاورئی کی ایک محترم اور بزرگ سخصیت ریٹائرڈ صوبیدار میجر سید کمال خٹک، ان کے والد مرحوم حلیم شاہ بابا چچا نوروز خان بابا مرحوم اور ان کے خاندان کی ملکیت ہیں - ان کی شرافت اور دریا دلی کا یہ عالم کہ کبھی کسی آدمی کو یہاں آرام کرنے سے یا کسی کو مال مویشی چرانے سے منع نہیں کیا اور شاید ہی وجہ ہے کہ خاورئی کی تاریخ میں کبھی اہل خیر کی ملکیت اس خیر و برکت والے چشمے ,, سڑہ چینہ،،کا پانی خشک نہیں ہوا- اس وقت فارم والی مکھیوں کا رواج نہیں تھا اس لیے,, سڑہ چینہ،، شہد کی عام چھوٹی مکھیوں کے چھتے مل جایا کرتے تھے جبکہ عین,,سڑہ چینہ،، میں درختوں پر جنگلی بڑی مکھیوں کے چتے لٹکتے رہتے تھے جنہیں کبھی کبھی ہم چھیڑ لیتے تو وہ ہماری خوب خبر لیتیں لیکن نتیجے میں ہمیں بالکل اصلی شہد مل جایا کرتا تھا - گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمارا معمول تھا کہ اپنے مال مویشی خود چرایا کرتے تو ساتھ گڑ او رچائے کی پتی بھی لے جایا کرتے اور ڈھلتی دوپہر میں سب بکریوں کے خالص دودھ اور گڑ کی چائے سے,,سڑہ چینہ،، میں مزے لیتے -
,,غوباڑے ،، کے نام سے ایک مکھی ہوتی ہے جو مال مویشی خاص کر گائے اور گائے کے بچوں کو چمٹ کر کاٹتی ہے اور جانور تیز بھاگنا شروع کرتا ہے اور جب تک وہ مکھی جانور پر بیٹھی رہتی ہے جانور کسی کے قابو میں نہیں آتا ہے - اسی طرح جھلستی دوپہر میں جب ہم اور ہمارے مال مویشی,,سڑہ چینہ،، کی ٹھندی چھاؤں کے مزے لے رہے ہوتے تو ,, غوباڑے،، رنگ میں بھنگ ڈال کر کسی جانور کو چمٹ جاتا اور پھر,, سڑہ چینہ،، کی خاموش وادی میں ایک ہلچل مچ جاتی اور ہم سب اس جانور کو قابو کرنے کے لیے بھاگ دوڑ شروع کرتے -
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارے بعض ساتھی جو آج کل گاؤں کے معززین میں سے ہیں وہ رونا شروع کردیتے -گائے بکریاں چرانا اور بانسری بجانا لازم و ملزوم ہوا کرتا تھا اس لیے کسی نہ کسی ساتھی کے پاس بانسری ضرور ہوا کرتی تھی اس لیے چائے کے ساتھ بانسری پر اس وقت کے قومی اور ثقافتی نغموں سے لطف اندوز ہوا کرتے - مجھے اس وقت سے ایک عادت تھی وہ یہ کہ میں بانسری نزدیک کی بجائے دور سے سننا پسند کرتا تھا اور چاہتا کی کوئی دور پہاڑی وادی میں بانسری بجائے اور میں یہاں سنتا رہوں - میری یہ فرمائش اکثر ساتھیوں کو ناگوار گزرتی تھی کیونکہ انہیں دور جانا پڑتا تھا لیکن کبھی کبھی جب ساتھیوں کی اکثریت میرے ساتھ ہوتی تو بانسری بجانے والا سامنے والے پہاڑ,, مورچہ،، کی طرف چلا جاتا اور چونکہ ہمارے گھر جانے کا راستہ بھی اسی طرف ہی تھا اس لیے ہمارے ساتھ ہی گھر واپس آتا-
زمانے کے نشیب و فراز،باد وباران، سیلابوں اور طوفانوں کے سامنے سینہ سپر ہماری روایات کا آمین ہمارے آباء و اجداد کا مسکن,, سڑہ چینہ،، آج بھی پورے آب و تاب اور فراخدلی کے ساتھ انسانوں اور مال مویشیوں کو آب حیات کی طرح ٹھنڈے، میٹھے، صحت بخش، صاف اور فرحت بخش پانی سے سیراب کررہا ہے -
,, سڑہ چینہ،، خاورئی کا ایک بہترین پکنک پوائنٹ ہے اور,,سڑہ چینہ،، کی وادی شہد کی مکھیوں BEE FORMING مالٹوں انگور اور انار کے باغ اور منرل واٹر کا پلانٹ لگانے کے لیے ایک بہترین اورموزوں جگہ ہے بلکہ یہاں کا پانی تو بذات خود تمام پہاڑوں کے منرلز کی وجہ سے ایک شفاء بخش منرل واٹر ہی ہے 
ہماری روایات کا آمین خاورئی کا تاریخی چشمہ ہماری روایات کا آمین خاورئی کا تاریخی چشمہ Reviewed by Zintovlogs on March 29, 2020 Rating: 5

No comments:

This is the current condition of these people after rain it is really heartbreaking

district Badin This is the current condition of these people after rain it is really heartbreaking and very sad . They have no facilities e...

Powered by Blogger.