banner image

Facebook

banner image

پاکستان میں چینی اور سیاست کا بہت تعلق رہا ہے




پاکستان میں چینی اور سیاست کا بہت تعلق رہا ہے
آمر ایوب خان کے خلاف عوامی سطح پر بے چینی اس وقت سامنے آئی تھی جب چینی کی قیمت ایک روپیہ 25 پیسے سے ایک روپیہ 37 پیسے یا شاید ایک روپیہ 37 پیسے سےایک روپیہ 50 پیسے سیر ہوگئی تھی.
ان دنوں ایک وزیر عبدالغفور ہوتی کی مردان میں پریمئیر شوگر ملز ایشیا کی سب سے بڑی شوگر مل تھی. جہاں گنے کے علاوہ چقندر سے بھی چینی بنتی تھی. ظاہر ہے چینی کی مارکیٹ پر ان کی اجارہ داری تھی. سو لوگوں نے غصہ ان پر نکالا، ہوتی سے قافیہ ملا کر ان کی شان میں خوب نعرے لگائے گئے. ایوب خان کے اقتدار پر پہلی ضرب تبھی لگی.

جنرل جیلانی نے جب نواز شریف کو پنجاب کا حکمران بنایا تو ان کے خاندان کی اتفاق فونڈری شوگر ملز کی مشینری منگواتی بھی تھی اور چھوٹے پیمانے پر بناتی بھی تھی. انہوں نے اور ان کے خاندان نے خود بھی شوگر ملیں لگائیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دی.
کہتے ہیں کہ وہ ایم پی ایز، ایم این ایز سے کہتے بھئی شوگر مل کیوں نہیں لگا لیتے؟
وہ کہتے ہم تو زمیندار لوگ ہیں، ایسے کام تو کئے نہیں. پھر اتنی سرمایہ کاری بھی رسک ہے.
وہ انہیں تسلی دیتے، سرمائے کی فکر نہ کرو. مشینری ہم سے لو. چاہے ہم سے ادھار لو، چاہو تو بنک سے قرضہ دلوا دیتے ہیں. خسارہ آپ کو ہونے نہیں دیں گے.
اب ان کی مشینری بِکنی ہی بِکنی تھی اور اُن کا ادھار کوئی مار نہیں سکتا تھا.
سو پنجاب میں دھڑا دھڑ شوگر ملیں لگنے لگیں.
حاکمِ پنجاب نے اپنے کلائنٹس کیلئے کئی سہولتیں پیدا کیں. سب سے بڑی یہ کہ ایک قانون بنایا. جس کے تحت جہاں مل لگے گی، اسے شوگر مل ایریا قرار دے دیا جائے گا اور کاشت کار گنے کی پیداوار شوگر مل کو بیچنے کے پابند ہوں گے.ان کے اپنے گھر، خاندان کیلئے بھی گڑ شکر بنانے کی ممانعت کردی گئی.
پولیس والوں کو کمائی کا ایک نیا موقع ہاتھ آگیا. کوئی گڑ شکر بنانے کیلئے بیلنے کڑاہ کا انتظام کرتا تو پولیس پکڑنے پہنچ جاتی. چونکہ وزیراعلی' کے مجرم ہوتے، اس لئے بھاری رشوت لے کر چھوڑا جاتا.
پیداوار بڑھتی گئی اور مل مالکان کی ہوس بھی. اب کمائی کا ایک نیا طریقہ نکالا گیا. یہ ظاہر کرکے کہ چینی کی پیداوار ملکی ضرورت سے زیادہ ہوگئی ہے. برآمد (export) کی اجازت دے دی جاتی. لیکن جس قیمت پر وہ پاکستان میں چینی بیچتے ہیں، عالمی منڈی میں اس سے ہمیشہ کم قیمت رہی ہے. سو انہیں کہا گیا کہ وہ چاہے پاکستانیوں کیلئے سستی نہ کریں باہر سستی بیچ دیں، چونکہ زرمبادلہ آئے گا اس لیے جو نقصان ہوگا وہ پورا کرنے کیلئے حکومت سبسڈی دے گی. یوں قومی خزانے کے اربوں روپے اڑائے گئے.
اکثر ایسا ہوتا کہ پہلے چینی برآمد کرکے سبسڈی دی جاتی اور پھر ملک میں قلت پیدا ہوجاتی، چور بازاری کی جاتی اور شور مچتا تو پھر درآمد کرنا پڑتی.
عشروں سے سبھی اسی طرح کھاپی رہے تھے، کوئی نہیں بولتا تھا.کیونکہ سبھی شوگر ملیں سیاسی خاندانوں یا ان کے خرچے چلانے والوں کی تھیں. پچھلے دنوں سیاسی دھڑے بندی کے باعث پہلی دفعہ سبسڈی حرام قرار پائی.
اتنی بار یہ برآمد، سبسڈی اور پھر درآمد کا چکر چل چکا ہے، نیت نیک ہوتی تو بہت پہلے یہ طے کرلیا جاتا کہ چینی کی پیداوار ملکی ضرورت تک محدود رکھی جائے گی. نہ برآمد ہوگی نہ درآمد.
شوگر ملوں والے گنے کی قیمت دو روپے بڑھنے پر بھی ناخوش ہوتے ہیں. اجارہ داری کے باعث کاشت کاروں کو ہر طرح سے زچ کرتے ہیں. ظاہر یہ کرتے ہیں کہ گھاٹے کا سودا ہے لیکن دوسری طرف ایک کے بعد دوسری ملیں لگاتے جارہے ہیں. ایک ایک خاندان کی درجن درجن ملیں یا ان میں حصص ہیں.
ان کے اکاؤنٹنٹ ایسے حساب بناتے ہیں گویا کاشت کار انہیں لوٹ رہے ہیں.
نجی بجلی گھروں کی لوٹ مار کی رپورٹ آئی ہے تو پتہ چلا ہے کہ شوگر ملوں کے گنے کے پھوک سے بھی اربوں کی بجلی بنائی جارہی ہے. کئی دوسری ذیلی پیداوار الگ ہیں جنہیں وہ منافع میں شمار ہی نہیں کرتے.
ہونا تو یہ چاہئیے کہ چینی، گندم، آٹے، پھلوں، سبزیوں، پولٹری، ڈیری مصنوعات غذائی اشیاء کی برآمد پر مکمل پابندی ہو تاکہ یہ معیاری اشیاء لوگوں کو نسبتا" کم قیمت میں مل سکیں. آبادی کی اکثریت کم غذائیت کا شکار ہے.
سب مانتے ہیں کہ سفید چینی نقصان دہ ہے. لیکن آپ براؤن شوگر (دیسی چینی) لینے نکلیں تو بعض برانڈ 500 روپے فی کلو ہیں.
کاشت کاروں کو بھی گڑ شکر بنانے کی اجازت دے دینی چاہئیے.
پاکستان میں چینی اور سیاست کا بہت تعلق رہا ہے پاکستان میں چینی اور سیاست کا بہت تعلق رہا ہے Reviewed by Zintovlogs on April 29, 2020 Rating: 5

No comments:

This is the current condition of these people after rain it is really heartbreaking

district Badin This is the current condition of these people after rain it is really heartbreaking and very sad . They have no facilities e...

Powered by Blogger.