شدت درد سے رہا نہ گیا
پھر بھی منہ سے کبھی کہا نہ گیا
گو کتابیں خریدلیں کتنی
ایک صفحہ مگر پڑھا نہ گیا
کوئی دیوار بھی نہ تھی ایسی
نام جس پر مرا لکھا نہ گیا
میں پریشان تھا مگر مجھ سے
رات کو دن کبھی کہا نہ گیا
کوئی ایسا نہیں ملا مجھ کو
جو مرے درد کو بڑھا نہ گیا
بس وہی شخص خوش تھا محفل میں
جس کے بارے میں کچھ کہا نہ گیا
کیا نبھائیں گے ساتھ خاروں کا
ساتھ پھولوں کے جب رہا نہ گیا
پیار کرتا ہوں میں تمہیں سے مگر
جانے کیوں تم سے یہ کہا نہ گیا
ہم ترے ساتھ چل سکے نہ پیام
دو قدم تم سے بھی چلا نہ گیا
پیام
شدت درد سے رہا نہ گیا
Reviewed by Zintovlogs
on
September 21, 2019
Rating:
No comments: