تیری آنکھوں سے پیا کافی ہے
جو گيا ہاتھ سے کیا غم اس کا
جو مقدر سے ملا کافی ہے
اس قدر سوکھ چکے ہیں پتے
ایک ہلکی سی ہوا کافی ہے
آپ خود ساری خدائی رکھئے
مجھ کو بس میرا خدا کافی ہے
آہ میں ہوتی ہے آواز کہاں
اسکی خاموش صدا کافی ہے
تم نہ آئے کوئی خوشبو لیکر
مجھکو گلشن کی ہوا کافی ہے
کس قدر لوگ ہیں گھبرائے ہوئے
شہر میں خون بہا کافی ہے
لٹ گئے آپ شرافت میں پیام
چلئے جو کچھ بھی بچا کافی ہے
پیام
ساقیا اب نہ پلا کافی ہے
Reviewed by Zintovlogs
on
October 05, 2019
Rating:
No comments: