درخت اپنا لباس تبدیل کررہے ہیں
کہیں کسی شاخ سبز کی اوڑھنی پہ ہلکی سی گوٹ لگ رہی ہے
کہیں کسی زرد رنگ پتی کا حاشیہ سرخ ہو رہا ہے
کہیں قبائے شجر گلابی سی ہوگئی ہے
کہیں ہرے پيڑ زرد ، نارنج چادریں اوڑھنے لگے ہیں
کہیں فقط قرمزی سی اک روشنی درختوں پہ اپنا ہالہ کئے ہوئے ہے
کہیں پہ کنج چمن شہابی دلوں کو لو سے دمک اٹھا ہے
کہیں پہ جیسے زمر دیں شاخسار پر لعل کھل اٹھے ہیں
فضا میں یاقوت بہہ رہا ہے
ہوا کے رخسار سرخ ہونے لگے ہیں
اک خوشگوار ٹھنڈک نے شہر کو بازوؤں میں اپنے سمیٹ کر
خوش دلی سے یوں پیار کر لیا ہے
کہ صبح گلنار ہوگئی ہے
تمام پیڑوں کے ہاتھ سے پھول گر چکے ہیں
پر ایسا لگتا ہے
جیسے رنگ میں اگیا رنگ ریز کوئی
بڑی مہارت سے
ایک اک پیڑ کی قبا رنگنے میں مصروف ہوگیا ہے
کہیں پہ شبنم کی آب ہے
اور کہیں پہ ابرق ہے دھوپ کی
جس کی روشنی میں
مرا چمن جھلملا رہا ہے
خزاں کا چہرہ نکھار پر ہے
اک اور منظر کے رنگ وبو کی
بہار اپنی بہار پر ہے
پروین شاکر
فضا میں یاقوت بہہ رہا ہے
ہوا کے رخسار سرخ ہونے لگے ہیں
اک خوشگوار ٹھنڈک نے شہر کو بازوؤں میں اپنے سمیٹ کر
خوش دلی سے یوں پیار کر لیا ہے
کہ صبح گلنار ہوگئی ہے
تمام پیڑوں کے ہاتھ سے پھول گر چکے ہیں
پر ایسا لگتا ہے
جیسے رنگ میں اگیا رنگ ریز کوئی
بڑی مہارت سے
ایک اک پیڑ کی قبا رنگنے میں مصروف ہوگیا ہے
کہیں پہ شبنم کی آب ہے
اور کہیں پہ ابرق ہے دھوپ کی
جس کی روشنی میں
مرا چمن جھلملا رہا ہے
خزاں کا چہرہ نکھار پر ہے
اک اور منظر کے رنگ وبو کی
بہار اپنی بہار پر ہے
پروین شاکر
بہار اپنی بہار پر ہے
Reviewed by Zintovlogs
on
February 11, 2020
Rating:
No comments: