راہ دشوار کی جو دھول نہیں ہو سکتے
ان کے ہاتھوں میں کبھی پھول نہیں ہو سکتے
تیرے معیار پہ پورے نہ اترنے والے
معصب عشق سے معزول نہیں ہو سکتے
اتنا خوں ہے مرا گلشن میں کہ اب میرے خلاف
پیڑ ہو جائیں مگر پھول نہیں ہو سکتے
حاکم شہر کے اطراف وہ پہرہ ہے کہ اب
شہر کے دکھ اسے موصول نہیں ہو سکتے
فیصلے جن سے ہو وابستہ وطن کی قسمت
صرف اندازوں پہ محمول نہیں ہو سکتے
خون پینے کو یہاں کوئی بلا آتی ہے
قتل تو روز کا معمول نہیں ہوسکتے
جنبش ابروئے شاہاں نہ سمجھنے والے
کسی دربار میں مقبول نہیں ہو سکتے
پروین شاکر
Urdu Poetry - Ghazal
Reviewed by Zintovlogs
on
February 11, 2020
Rating:
No comments: