قدم نہیں اٹھتے ہیں
جانے کس کے سر پہ
کس کے دل پر
پاؤں پڑجائے
یہاں اس ٹھنڈے فرش کے نیچے
گرمی خواب سے جلنے والی
کتنی آنکھیں خوابیدہ ہیں
وہ جو دنیاوی فرہنگ میں
خوش طالع کہلاتے تھے
جن کے بخت کا تارہ
وقت کے ماتھے پر کچھ ایسے چمکا
جیسے کبھی کبھی غروب نہ ہوگا
جن کی فکر نے
ایک ہجوم کا دھارا موڑا تھا
کوئی وقت، کوئی حرکت اور کوئی مقام سے آگے تھا
دو تثلیثوں کا ٹکراؤ
عزت نفس کا پرچم آکر کیسی ہوا میں لہرایا تھا
خاموشی کی اک اپنی آواز ہے لیکن
حد سے بڑھے تو
سناٹا بھی بول اٹھتا ہے
گرجا کے اس سحر زدہ سے نیم دھند لکے میں
دیواروں پر بنی ہوئی تصویریں زندگی لگتی ہیں
خندہ استہزا سے مجھ کو دیکھتی ہیں
لڑکی! تو کس زعم میں ہے
شعر تو ہم بھی لکھتے ہیں
ہم بھی آگ سے خاک ہوئے
کل تو بھی مٹی میں مٹی ہوجائےگی
لیکن ہم میں اور تجھ میں اک فرق رہے گا
تیرے نام کا تارہ بھی
تیری طرح بجھ جائے گا۔
پروین شاکر
ویسٹ منسٹرایبے
Reviewed by Zintovlogs
on
February 17, 2020
Rating:
No comments: