ایسی شانتی تھی
جو اک گہرے تذبذب سے نکل کر
ذہن میں ایک فیصلے کے بعد آتی ہے
تذبذب سے نکلنا اس قدر آساں نہيں جاناں
یہ وہ جنگل ہے
جس میں راستے اک دوسرے کو کاٹ دیتے ہيں
مسافر اک قدم آگے بڑھاتا ہے
تو سو خدشات دامن تھام لیتے ہیں
کوئی رستہ دکھانے کا کہاں سوچے
چراغوں یک تو کیا کہنا
یہاں تو جگنووں پہ شک گزرتا ہے
سو ایسے گھپ اندھیرے میں
یقیں کی شمع کس نے آکے تیرے دل میں روشن کی
ترے چہرے پہ اب کی بار
کیسی روشنی تھی
پروین شاکّر
ترے لہجے میں اب کی بار
Reviewed by Zintovlogs
on
February 18, 2020
Rating:
No comments: