اور مصر رہا کہ اسے اسکی زوجہ کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے
نوجوانوں نے ایک دوسرے کو
آنکھوں ہی آنکھوں میں کہنیاں ماریں
بوڑھوں نے اسے خلل دماغ کہا
اور مولوی نے بدعت
باسو بڑی مشکل سے گھر لایا گیا
وہ روز دفتر سے سیدھا میوہ شاہ چلا جاتا
پھولوں اور اگربتیوں کیساتھ
اس کا کافی عرصے یہی معمول رہا
پھر جمعرات کے جمعرات
پھر ہر نو چندی کو
پھر عید، اور شب برات
اخری میں برسی کے برسی
ایک دن چلچلاتی دھوپ میں
بس نمبر 60 سے اترتے ہوئے
اس کی نظر ایک پیڑ پر پڑی
تو اسے دفتر میں رکھی گئی
نئی ٹائپسٹ کا خیال آگیا
اس دن اسے احساس ہوا
کہ دنیا ایک آدمی پر مشتمل نہیں ہے
باسو بہت ہنسا
پروین شاکّر
سمجھدای کی ایک نظم
Reviewed by Zintovlogs
on
March 11, 2020
Rating:
No comments: