مری طرح سے کوئی زندگی تو کر جائے
تمام عمر تاسّف میں ہی بسر ہوگی
تری طرف سے نظر بے رخی تو کر جائے
چراغ دل تہہ محراب جاں نہ چھوڑے گی
ہوا کے ساتھ کوئی دشمنی تو کر جائے
پھر اس کے بعد جہاں میں کہیں پناہ نہیں
ترے حضور یہ جاں سرکشی تو کر جائے
وہ دشمنی کے بھی قابل نہ مجھ کو چھوڑے گا
اس آدمی سے یہ دل دوستی تو کر جائے
پروین شاکّر
ہوا کے ہوتے ہوئے روشنی تو کر جائے
Reviewed by Zintovlogs
on
March 01, 2020
Rating:
No comments: