ہوئی تحریک ہم سے اور وہ بانی سمجھ بیٹھے
جسے بھی پیاس لگتی ہے بہاتا ہے لہو میرا
یہاں سب لوگ میرے خون کو پانی سمجھ بیٹھے
مجھے تو خود چکانا تھا حساب اپنے گناہوں کا
یہ کفارہ تھا جسکو لوگ قربانی سمجھ بیٹھے
حسیں منظر کے پیچھے تھی مری حسرت کی بربادی
چمکتی ریت کو ہم دور سے پانی سمجھ بیٹھے
یہ مت بھولو ہنسی کے بعد یاں رونا بھی پڑتا ہے
یہ لمحاتی خوشی ہے آپ لافانی سمجھ بیٹھے
وہ دیوانہ حقیقت میں پتے کی بات کرتا تھا
پیام اسکو مگر کیوں آپ نادانی سمجھ بیٹھے
پیام
کٹانا انگلیوں کا بھی وہ قربانی سمجھ بیٹھے
Reviewed by Zintovlogs
on
October 05, 2019
Rating:
No comments: