آسماں رویا ہو جیسے رات بھر
خوف ناکامی بھی دامن گیر تھا
کامیابی بھی مری تھی منتظر
ہاں وہی تو ہے وہی عالم ترا
تو وہی لگتا نہیں ہے کیوں مگر
داستاں ہوتی گئی اپنی طویل
ہم سنانا چاہتے تھے مختصر
کچھ نئے پودے لگا لے باغباں
جانے کب گر جائیں یہ بوڑھے شجر
بخش دیتے ہیں یہاں باطل کو لوگ
اور چڑھا دیتے ہیں حق کو دار پر
خشک ہیں آنکھیں تری پھر بھی پیام
آنسؤں سے کیوں ترا دامن ہے تر
پیام
یوں زمیں بھیگی رہی وقت سحر - آسماں رویا ہو جیسے رات بھر
Reviewed by Zintovlogs
on
October 05, 2019
Rating:
Nice one
ReplyDelete