جن میں زندگی نے خواب لکھے تھے
وہی پلکیں ہیں جن پر
میرے ہونٹوں کی شعاعوں نے
چنی تھی کہکشاں اکثر
وہی لب جن سے لفظوں کے ستارے ٹوٹ کر
میری غزل میں سانس لیتے تھے
وہی چہرہ --- جو حرف و صوت کے ہر دائرے میں مرکزی نقطہ
وہی گردن کہ جس میں عقد مرجاں آئنہ بندی کا خمیازہ
وہی بازو جنہیں میرے بدن کا لمس اکثر
بے کراں چاہت کی رت سے
آشنا کرتا
وہی سب کچھ -- مگر اک فرق واضح ہے
کہ اب اس کی طبیعت میں سمندر کا تموج ہے
وہی سب کچھ -- مگر اب اس طرح لگتا ہے جیسے
ہم میں نادیدہ فصلیں کھچ گئیں خود سے
کبھی میری محبت سے اٹے مہتاب کی راتیں
گھنی راتیں
اسے اچھی نہیں لگتی
کبھی بے ربط و بے خواہش ملاقاتیں
اسے اچھی نہیں لگتیں
وہی سب کچھ سہی لیکن -- اب ایسا ہے
میری باتیں --- اسے اچھی نہیں لگتیں
محسن نقوی
وہی سب کچھ سہی لیکن
Reviewed by Zintovlogs
on
October 09, 2019
Rating:
Very nice words
ReplyDelete