رات کو سورج نہ ڈھلتا اور دنیا دیکھتی
میری سانسوں کی تپش سے تیرا مر مر سا بدن
برف کی صورت پگھلتا اور دنیا دیکھتی
میری آنکھیں مسکراتیں شام شہر ہجر پر
وقت خود سے ہاتھ ملتا اور دنیا دیکھتی
شہر بھر کی روشنی بچھتی مری دہلیز پر
بن سنور کر تو نکلتا اور دنیا دیکھتی
کاش اک باغی ستارے کی طرح آنسو مرا
تیری پلکوں پر مچلتا اور دنیا دیکھتی
پیاس پی لیتی سمندر کی رگوں کے ذائقے
سیپیاں، صحرا اگلتا اور دنیا دیکھتی
یا سبھی آنگن اندھیرے پھانکتے محسن
یا دیا ہر گھر میں جلتا اور دنیا دیکھتی
محسن نقوی
تو مرے ہمراہ چلتا اور دنیا دیکھتی
Reviewed by Zintovlogs
on
October 09, 2019
Rating:
No comments: