پھیلا ہوا ہے حد بصارت میں نور کیا
مہتاب نے کیا مرے اندر ظہور کیا
خود پھول کی طرح مجھے کھلنے کا شوق تھا
اب تیز ہے ہوا تو ہوا کا قصور کیا
اک نقش موج آب رواں پر بنا ہوا
ایسے ہنر پہ فکر سخن کا غرور کیا
جب آمد بہار کا امکان نہیں
پھر نغمہ سنج ہوں گے فضا میں طیور کیا
ہر چیز فاصلے پہ نظر آئی ہے مجھے
اک شخص زندگی میں ہوا مجھ سے دور کیا
سب خیریت کا سن کے بدن سرد پڑگئے
کس کو نہیں خبر کہ ہے بین السطور کیا
تکریم زندگی سے بھی اب دست کش ہمیں ہم
اس سے زیادہ نزر گزاریں حضور کیا
پروین شاکر
پھیلا ہوا ہے حد بصارت میں نور کیا
Reviewed by Zintovlogs
on
February 09, 2020
Rating:
No comments: