چھاؤں بیچ آئے ہیں یوں نفس سے مجبور ہوئے
وہ جو تقسیم ثمر یہ یہاں مامور ہوئے
شعبہ رزق خدا نے جو رکھا اپنے پاس
نائب اللہ بہت بد دل و رنجور ہوئے
وہی شداد ، وہی جنت خاشاک نہاد
ویسے ہی عظمت یک لحظہ پہ مغرور ہوئے
وہ رعونت ہے کہ لگتا ہے ازل سے ہیں یونہی
نشہ مسند شاہانہ سے مخمور ہوئے
اپنی تقویم میں اب منظر فردا تو نہیں
عکس معزول سے کچھ اس طرح مسحور ہوئے
ہم وہ شہزاد سیہ بخت کہ دشمن کی بجائے
اپنے لشکر کے سبب شہر میں محصور ہوئے
اب تو بس خواب کی بیسا کھی پہ چلنا ہوگا
مدتیں ہوگئیں اس آنکھ کو معزور ہوئے
پروین شاکر
چھاؤں بیچ آئے ہیں یوں نفس سے مجبور ہوئے
Reviewed by Zintovlogs
on
February 09, 2020
Rating:
No comments: