جز غبار راہ کچھ پیش نظر رکھا نہیں
ہم نے اپنے ساتھ اسباب سفر رکھا نہیں
ایک کوزہ ، اک عصا، اک خرقہ گل کے سوا
ہم فقیروں نے کسی نعمت کو گھر رکھا نہيں
ایک بار اس نے مرے عیبوں پہ پردہ رکھ لیا
اس رعایت کو مگر بار گرد رکھا نہیں
رات تھے گھر پر چراغ اور عطر اس کے منتظر
پاؤں تک لیکن ہوا نے بام پر رکھا نہیں
جنگلوں میں شام اتری ، خون میں ذات قدیم
دل نے اس کے بعد انہونی کا ڈر رکھا نہیں
پروین شاکر
جز غبار راہ کچھ پیش نظر رکھا نہیں
Reviewed by Zintovlogs
on
February 12, 2020
Rating:
No comments: