شہر کے بیچوں بیچ نمائش لگی ہوئی ہے
طرح طرح کے زخموں کے اسٹال لگے ہیں
کہیں بڑی محنت سے سرخ رنگائے ہوئے دلکش ملبوس
سینت سینت کے رکھے ہوئے تارداماں
پھٹے ہوئے آنچل
اور مسکی اوڑھنیاں
نم آلود شکن بستہ میلی چادر
لوح پشت پہ نیلم کی نقاشی والے جسم
حبس بے جا میں رکھے جانے والے کچھ خواب
گروی رہنے والی آنکھیں
عمر قید پانے والی آشائیں
جلا وطن امیدیں
اس انبوہ رنگ میں
کچھ ایسے بھی لوگ کھڑے ہیں
جن کے دل اور لان کے پھول
کبھی نہیں مرجھائے
جن کی نرمی پیراہن کو
باد صبا تک چھونے سے گھبراتی ہے
جن کے بدن پر اک ہلکا سا زخم لگے تو
لالہ رخان شہر کی پلکیں
بہر رفو آجاتی ہیں
جن کی خواب گہوں کا ریشم
سپنے بنتا رہتا ہے
نیلم اور یاقوت یہاں پر ، اپنی جگہ پر ہوتے ہيں
خواب انہیں خود دیکھتے ہیں
عمر قید
حبس بے جا
اور کالا پانی
جیسے لفظ
انکے لئے نامحرم ہیں
جن کے گھروں میں
فصل کے میوے
رت کے پھول
اور تہوار کی شیرینی
حاکم وقت کے توشّہ خاص سے بجھوائے جاتے ہیں
مخبر خاص کی خلعت پا کر
معتبرین شاہ میں شامل ہوکر
جو ہر صبح نکلتے تھے
زیر فلک نافرمانی کی سن کن لینے
زیر زمیں میں سچائی کی سرکوبی کرنے
اور ہر شام کو کافی ہاوس میں
حاکم ناجائز کے خلاف
نیا تبرا لکھنے اور مکرر کہنے والے سادہ دلوں کے گھر کا پتہ
کارکناں سادہ قبا تک پہنچانے
چیزوں کی ترتیب اچانک بدل گئی ہے
سرچشمہ دکھ ہے یا گلیسرین
آنسو یکساں چمک رہے ہیں
ساری آنکھیں صف بستہ ہیں
دروازے پر لگی ہوئی ہیں
بانوئے شہر قدم رنجہ ہوں
فیتہ کاٹیں۔
پروین شاکّر
نمائش
Reviewed by Zintovlogs
on
March 11, 2020
Rating:
No comments: