banner image

Facebook

banner image

خوشحال خان خٹک کی نصیحتیں

Khushal Khan Khattak advice


بسم اللہ الرحمن الرحیم
خوشحال خان خٹک کی نصیحتیں
پشتو ادب سے انتخاب
محمد فاروق خٹک خاورئی
اسلامی حلقوں کی بہت ساری خوبیوں میں سے ایک علم و جستجو اور تعلیم و تحقیق کے ذوق کو پروان چڑھانا ہے ۔ میں بذات خود اہل علم کا خادم ہوں اور قوم پرستی یا حلقہ قومیت کی جاہلیت سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ جب شعور کی آنکھ کھولی تو پشتو کے مشہور شاعر اور سردار خوشحال خان خٹک کے مزار پر ہر سال “جشن خوشحال ،، ہوا کرتا تھا ۔ جس میں ملک اور بیرون ملک کے نامور شعراء اورادیبوں کے لیے بھی دن مخصوص ہوا کرتا تھا ۔ اسی طرح کے ایک پروگرام میں اجمل خٹک نے زمانے کی ہوا کو مخاطب کرکے ایک انقلابی نظم پڑھی تھی جس نے انہیں ادب و سیاست میں بام عروج پر پہنچایا تھا ۔ اس وقت جشن خوشحال کے انتظامات کے تمام اخراجات ماسکو سے بذریعہ کابل مختلف ادبی جرگوں اور تنظیموں کے زریعے آیا کرتے تھے ۔ مزار خوشحال خوشحال خان خٹک کی تعمیربھی کابل جکومت نے کی تھی اور مزار کے سنگ مرمر کے تختے بھی کابل سے آئے تھے ۔ اسی طرح مختلف ادبی و سیاسی و ثقافتی پروگرامات کے انعقاد کے لیے فنڈز بھی آیا کرتے تھے اور اکوڑہ خٹک میں جگہ جگہ درجنوں خوشحال ادبی جرگے اور تنظیمیں سرگرم ہوا کرتی تھیں ۔ مجھے بذات خود اس وقت بڑی حیرت ہوتی تھی کہ خوشحال خان خٹک تو قبیلہ خٹک سے تعلق رکھتے تھے یا اگر بحیثیت افغان بھی تصور کرلیں تو آخر ماسکو کو کیا ضرورت پڑی ہے ۔ یہ عقدہ بہت بعد میں کھلا کہ روس نے جب بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے لیے پیش قدمی کی تو اس کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کیا کرتا تھا اور چونکہ اس کی نظریں افغانستان کے بعد اس خطے پر تھیں اس لیے اور ویسے بھی افغانستان میں اس کے خلاف مزاحمت کا میدان اسی خطے نے بننا تھا ۔ تو اس خطے کے قبائل کو رام کرنے کی لیے یہاں کے سیاسی میدان کے ساتھ ساتھ ادبی میدان کو بھی خوب استعمال کیا اور پشتو کے دو عظیم شعراء کے مزار بنوائے ان کے مزاروں پر جشن منائے جانے لگے اور علم و ادب کے نام سے قوم پرستی کے جذبات پروان چڑھائے جانے لگے جس کا تمام تر فائدہ کیمونزم کی حمایت میں ہی جاتا تھا ۔ ورنہ جب اجمل خٹک 13 سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد سرخ ڈولی کو خیبر کے زریعے لانے کی بجائے براستہ دہلی پاکستان آئے تو امید تھی کہ جشن خوشحال اور اسی طرح کے ادبی پروگراموں کو تقویت ملے گی لیکن برعکس وہ تمام ادبی جرگے ختم ہوئے ‘ جشن خوشحال بند ہوا اور آج مزار خوشحال خان خٹک کی حالت نا گفتہ بہ ہے حالانکہ کابل بھی وہی ہے اور ماسکو بھی وہی ‘ سرحد کا نام پختونخواہ بن چکا ہے
چونکہ پشتونوں کا بحیثیت مجموعی دین کی طرف رجحان زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے اسلام پسند حلقے پشتو ادب کو دین کی خدمت کے لیے استعمال کرنے کو درخود اعتنا نہیں سمجھتے ۔ جبکہ قوم پرست اور اباحیت پسند اس کا بھر پور فائدہ اُٹھا رہے ہیں ۔ بظاہر یہ معمولی بات ہے لیکن اس کے بڑے دور رس اور خطرناک نتائج نکل رہے ہیں ۔ عام طور پر یہی تأثر دیا جارہا تھا کہ خوشحال خان خٹک ایک قوم پرست سردار تھے ۔ اور مغلوں سے ان کی کشمکش رہی ۔ جبکہ اسلامی حلقوں نے اس کی تحقیق ہی نہیں کی ۔ حالانکہ اُس وقت قومیت کا مفہوم ہی اور تھا اور قوم پرستوں کے لادینیت اور اباحیت پسندی جیسے مذموم مقاصد بھی نہ تھے ۔ کیونکہ افغانوں اور پشتونوں کی پوری تاریخ جرأت و شجاعت رزم بزم اور ننگ و غیرت کی تاریخ ہے ۔ دوسری طرف اقبالیات اسلامی حلقوں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ اقبال کے اشعار عام اجتماعات تو درکنا ر محراب و منبر پر بھی بلا تردد پڑھے اور سنائے جاتے ہیں کہ حکیم الامت نے مسلمانوں کی بیداری میں اہم کردار ادا کیا ۔ اسی مناسبت سے فکر اقبال اسلامی حلقوں کے نصاب تک میں شامل ہے ۔ لیکن اگر فکر اقبال اور خوشحال خان خٹک کا موازنہ کیا جائے تو بہت ساری چیزوں میں مماثلت نظر آتی ہے ۔ مثال کے طور پر شاہین کا تصور اقبال کا ایک نہایت اہم موضوع ہے شاہین پر بہت کچھ لکھا ہے جبکہ امت کے جوانوں کو شاہینی صفات کا حامل دیکھنا چاہتا تھے ۔ حالانکہ اقبال سے بے حد عقیدت و احترام کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اقبال نے عمر کا بشتر حصہ سیالکوٹ اور لندن میں گزارا اس لیے شاہین کی عادات کا مطالعہ کرنے کا کم ہی موقع ملا ہو گا بلکہ بعض ناقدین تو یہ تک کہتے ہیں کہ دیکھا تو شاید ہوگا لیکن پالا بہر حال نہ تھا ۔ جبکہ اس کے برعکس خوشحال خان خٹک چونکہ ایک سردار تھے گھوڑوں کے اصطبل تھے انواع و اقسام کے شاہین پال رکھے تھے جن سے شکار کھیلا کرتے تھے ۔ “باز نامہ ‘‘ کے عنوان سے ایک مکمل کتاب لکھی ہے جس میں شاہینوں کی خوراک عادات صفات اقسام اور فن شاہبازی پر مکمل اور جامع معلومات موجود ہیں ۔ اقبال کا بنیادی فلسفہ خودی اور خودداری ہے جبکہ خوشحال خان خٹک کا فلسفہ ننگ خودی سے بڑھ کردین و ملت حیا و ایمان بلکہ پوری مومنانہ زندگی پر محیط ہے ۔ اقبال جبر و استبداد کے مخالف تھے لیکن کلام کی حد تک۔ جبکہ خوشحال خان خٹک خود تلوار اُٹھا کروقت کی ایک طاقت سے نبرد آزما رہے ۔
اقبال کے کلام میں ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘ شکوہ جواب شکوہ اور دیگر بہت ساری اصطلاحات اور تمثیلیں ملتی ہیں جن میں ایک حکمت ہے ۔ بالکل اسی طرح خوشحال کے اشعار میں بھی بہت ساری حکمت کی باتیں شامل ہیں یہاں مثال کے لیے اُن کا اپنے استاد سے چند استفسارات اور اُن کے جوابات پشتو زبان سے اردو میں ملاحظہ ہوں ۔
آج میں نے اپنے استاد سے چند باتیں دریافت کیں تو انہوں نے مجھے جوابات سے سرفراز کیا ‘‘‘‘‘
میں نے پوچھا کہ کون ہے جو ہمیشہ ایک ہی حال میں رہتا ہے ؟ ‘‘
“جو ہمیشہ ایک حال میں رہتا ہے وہ ذوالجلال ہے ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ کہ وہ کون ہے جن کی حالت بدلتی رہتی ہے ؟ ‘‘
“کہا یہ حال تو بے چارے انسان کا ہے ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ دوستی کے لائق کون ہے ؟‘‘ ۔
کہا “ جس میں دغا جھوٹ اور فریب نہ ہو ‘‘ ۔
میں نے پوچھا ; جوان اپنی جوانی کے دنوں میں کیا کرے ؟ ۔
کہا “ علم و ہنر کی جستجوُ کا شغل رکھے ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ کون دنیا میں عزت و آبرو سے رہ سکے گا ؟ ۔
کہا “جو کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ کس سے اُمید قطع نہ کی جائے ؟ ۔
کہا “ ہر اُس شخص سے جس کاسیرت و کردار دونوں اچھے ہوں ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ وہ کونسی بحث ہے جو ہمیشہ اچھی ہوتی ہے ؟ ۔
کہا “ علمی بحث و مباحثہ ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ وہ کونسا سچ ہے جس کے کہنے سے سُبکی ہوتی ہے ؟ ۔
کہا “ اپنا کمال جتانے سے آدمی فوراً ہلکا نظر آنے لگتا ہے ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ کس آدمی کو نیک بخت کہا جا سکتا ہے ؟ ۔
کہا “ جو اپنے مال میں سخاوت سے کام لے ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ لائق ستائش کون ہے ؟ ۔
کہا جو ہمیشہ بخشش کرکے خوش ہوا کرے ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “کس آدمی سے ڈرنا چاہیے ؟ ۔
کہا “جسے حرام و حلال کی تمیز نہ ہو ‘‘
میں نے پوچھا “ جس سے عقل و دانش ضائع ہوتی ہیں وہ کیا ہیں ؟ ۔
کہا “ جھوٹی ڈینگیں اور جھوٹی بات چیت ‘‘ ۔
میں نے پوچھا اپنی خودداری برقرار رکھنے کی لوازمات کیا ہیں ؟ ۔
کہا “ مال و دولت ‘ قوی نوجوان اور شمشیر و سنان ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ جوانمردی کی کیا علامت ہے ؟ ۔
کہا “ قوت اور قدرت کے باوجود معاف کردینا ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “سب سے اچھا کام کونسا ہے ؟ ۔
کہا “ جہاں تک ہو سکے نیک اعمال اور نیک افعال کیا کرو ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ میں اُڑ کر آسمان تک کیسے پہنچوں ؟ ۔
کہا یہ کام ہمت و محنت کے بال و پر کے زریعے ہو سکتا ہے ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “کہ کیا کروں تاکہ طبیب کا محتاج نہ ہوں ؟ ۔
کہا “ کم کھانا ‘ کم بولنا اور کم مباشرت کرنا ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ کیا کروں تاکہ ہر دلعزیز بن جاؤں ؟ ۔
کہا “جھوٹ اور جھگڑالو پن سے پر ہیز کرو ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ کام میں کس سے مشورہ لیا کروں ؟ ۔
کہا “ ان سے جو کمال تک پہنچا ہوا ہو ‘‘ ۔
میں نے پوچھا کہ کن سے نیکی کی توقع نہیں کرنی چاہیے ؟ ۔
کہا “ ان سے جو بے وقوف اور نا اہل ہوں ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “کس کو اپنا دشمن سمجھ سکتا ہوں ؟ ۔
کہا “جو تمہاری خوشی دیکھ کر رنجیدہ ہو ‘‘ ۔
میں نے پوچھا “ کہ دوستی اور تعلق کس سے رکھوں ؟ ۔
کہا “ جو تمہارے ساتھ مخلص ہو ،،
خوشحال خان خٹک کی نصیحتیں خوشحال خان خٹک کی نصیحتیں Reviewed by Zintovlogs on April 09, 2020 Rating: 5

No comments:

This is the current condition of these people after rain it is really heartbreaking

district Badin This is the current condition of these people after rain it is really heartbreaking and very sad . They have no facilities e...

Powered by Blogger.